Iqra Aziz

Add To collaction

02-Sep-2022-تحریری مقابلہ : " تصویر کا ایک رُخ "

تصویر کا ایک رُخ 
از اقراء عزیز 

ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں
تم فقط ایک رُخ کیوں دیکھتے ہو


اس وقت وہ دبئی میں اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں بیٹھا تھا۔
اُس کی ابھی ابھی اپنے والدین سے بات ہوئی تھی اور وہ اس قدر سکون محسوس کر رہا تھا جو بیان سے باہر تھا۔ ماں باپ سے بات کرکے جیسے اس کی تھکن لمحوں میں غائب ہوئی تھی۔
اگر اُس کا بس چلتا تو وہ ابھی پر لگا کر پاکستان اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ جاتا۔
وہ کبھی دبئی جاب کرنے نہ آتا اگر اس کی چھوٹی بہن جو کہ بیمار تھی اس کے آپریشن کے لیے اسے پیسے جمع نہ کرنے ہوتے۔ اسے کسی صورت اپنے ماں باپ اور بہن، بھائی سے دور رہنا گوارا نہیں تھا۔ وہ اپنے والدین کا بڑا بیٹا تھا۔ اس سے چھوٹی اُس کی بہن عبیر تھی۔ اس کے بعد عبید سب سے چھوٹا تھا۔ اُس کے والد اپنی بڑھتی عمر کے باعث ریٹائرڈ ہوچکے تھے۔ اور فی الحال وہ ہی اپنے والدین کا واحد سہارا تھا۔
وہ جب سے دبئی آیا تھا محض ایک ہی بات سوچتا تھا کہ کاش۔۔کاش یہ وقتی دوریاں بھی اُن کے درمیان کبھی نہ آتیں۔
اگلے ہی پل اُس کے دوست عزیر کا اسے فون آیا تھا۔
عزیر کی آواز سے واضح پریشانی جھلک رہی تھی۔ لہٰذا وہ اس سے پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
" کیا ہوا عزیر۔۔کوئی پریشانی ہے؟ "
" یار عبد اللہ! کیا بتاؤں؟ جب سے شادی ہوئی ہے۔ اماں اور بیگم کی آپس میں بنتی ہی نہیں ہے۔ اب میں اس سب سے تھک چکا ہوں۔ "
وہ تھکے تھکے لہجے میں اُس سے کہہ رہا تھا۔
جبکہ عبد اللہ نے اس کی بات سننے کے بعد دھیرے سے سرہلایا تھا۔
" میں جانتا ہوں کہ میری ابھی شادی نہیں ہوئی۔ مگر میں سمجھ سکتا ہوں عزیر کہ گھر کا سکون انسان کو کس قدر عزیز ہوتا ہے۔ اگر گھر کا سکون قائم نہ رہے تو زندگی میں بھی سکون نہیں رہتا۔ "
وہ گہری سانس بھر کر بولا۔
" ہاں تم ٹھیک کہتے ہو عبد اللہ! تبھی میں سوچ رہا ہوں کہ اب اپنی بیگم کو لے کر دبئی آجاؤں ہمیشہ کے لیے۔ حال ہی میں مجھے وہاں ایک جاب آفر ہوئی ہے۔ "
جبکہ اس کی یہ بات سنتے ہی عبد اللہ کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔ عزیر اور اس کی دوستی اسکول کے وقت سے تھی۔ وہ اس کے والدین سے بھی کئی بار مل چکا تھا۔ وہ دونوں بہت ہی نرم دل اور پُرخلوص طبیعت کے مالک تھے۔ جبکہ عزیر ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔
اگر عزیر نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیا تو اس بڑھاپے میں وہ دونوں پاکستان میں تنہا کیسے رہیں گے؟ اسے جیسے ایک دم عزیر کی سوچ پر افسوس ہوا تھا۔
ایک وہ تھا جو اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ اور ایک اُس کا دوست تھا جو اپنے ماں باپ سے دور رہنے یہاں آنا چاہ رہا تھا۔
" ایک بات کہوں عزیر..تم اگر اپنے والدین کو چھوڑ کر یہاں دبئی آ جاؤگے تو تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری اماں اور بیگم کے درمیان یہ دوریاں ختم ہوجائیں گی؟ نہیں۔۔بلکہ تمہارے اس ایک قدم سے تمہارے اور تمہارے والدین کے درمیان بھی دوریاں آجائیں گی۔ تمہارے یوں چلے جانے سے بدگمانی مزید بڑھے گی، کم نہیں ہوگی۔"
وہ جیسے افسوس سے بولا تھا۔
" مگر عبداللہ! اس سب میں میرا کیا قصور، اماں کہتیں ہیں کہ وہ میری بیگم کو کچھ نہیں کہتیں۔ مگر بیگم کہتی ہے کہ اگر اماں کچھ نہیں کہتیں تو کیا سب میں ہی کہتی ہوں؟ وہ کہتی ہے کہ اماں اس کو طعنے دیتی ہیں۔۔ اس سے جلے کٹے انداز میں بات کرتی ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ میں کس کا یقین کروں؟ "
اب کے وہ جھنجلا کر رہ گیا تھا۔
جبکہ عبد اللہ نے لاؤنج میں رکھے صوفے پر بیٹھے ایک گہری سانس لی۔ اور چائے کا کپ سامنے رکھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ جو کہ وہ ابھی ابھی بنا کر لایا تھا۔ اگر امی یا اس کی بہن ہوتیں تو اسے کبھی خود سے چائے بھی نہ بنانے دیتیں۔
" جانتے ہو عزیر! اس وقت میں چائے پی رہا ہوں۔ مگر اپنے ہاتھ کی چائے پینے میں وہ مزہ نہیں آرہا جو امی اور عبیر کے ہاتھ کی پینے میں آتا ہے۔ "
وہ لمحے بھر کو خاموش ہوا۔ اور ایک بار پھر سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا۔
" تم سوچ رہے ہوگے کہ اس وقت تم مجھ سے اپنی زندگی کے اس قدر سنجیدہ موضوع پہ بات کر رہے ہو، جبکہ میں تمہیں اپنے گھر کی چائے کا حوالہ دے رہا ہوں۔۔تو میرے دوست تم مجھے محض یہ بتاؤ کہ تم اپنے اماں کے ہاتھ کی چائے کب سے پیتے آرہے ہو اور اپنی بیوی کے ہاتھ کی کب سے؟ "
" یہ کیسا سوال ہے یار عبد اللہ! تم۔۔۔" عزیر جیسے کہتے کہتے ایک دم رُکا تھا۔
شاید وہ عبد اللہ کی بات کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس میں کامیاب ہوچکا تھا۔
" اماں کے ہاتھ کی چائے تو میں بچپن سے پیتا آرہا ہوں۔ میں دس سال کی عمر سے چائے پی رہا ہوں۔ جبکہ اب میں تیس سال کا ہوچکا ہوں۔ اور میری شادی کو ابھی محض ایک سال ہوا ہے۔" جواباً وہ دھیمی آواز میں بولا تھا۔
" ہوں۔۔تو کیا اتنے سالوں میں تمہاری اماں نے تمہارے لیے کبھی کڑوی بدمزہ چائے بنائی ہے۔ جو تمہیں ہضم نہ ہوئی ہو؟ " وہ ایک بار پھر سنجیدہ لہجے میں اس سے سوال کر رہا تھا۔
" نہیں یار! تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے تم نے کبھی میری اماں کے ہاتھ کی چائے نہیں پی؟ یاد نہیں کالج سے واپسی پر ہم اکثر ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے۔ اور میری اماں بہت اچھی چائے بناتی ہیں۔ ایسی کہ اگر جو کسی کو ہضم نہ ہو تو مطلب اس کا ہاضمہ ٹھیک نہیں۔ ورنہ میری اماں کے ہاتھ کی چائے مزیدار ہوتی ہے۔" وہ اپنی اماں کے ہاتھوں کی بنائی گئی چائے کے حق میں بول رہا تھا۔ ساتھ ہی اس سے خفگی کا اظہار کیا تھا۔
" یہی بات... یہی بات تو میں کہہ رہا ہوں کہ سوچو میرے بھائی، جس ماں نے آج تک چائے بھی غلطی سے بدمزہ اور کڑوی نہیں بنائی۔ وہ ماں کڑوے الفاظ کیسے بول سکتی ہے؟ تم خود ہی سوچو تمہاری اماں کو تم بچپن سے دیکھتے آرہے ہو۔ انہوں نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی تو وہ تمہاری بیگم سے کیوں کر بحث و مباحثہ کریں گی۔ جبکہ بیٹے کی شادی ہوجائے تو والدین اس قدر محتاط ہوجاتے ہیں کہ کہیں ہمارے بیٹے اور بہو کو کوئی بات بری نہ لگ جائے۔ اس ڈر سے وہ کچھ کہتے نہیں۔ اور اگر کہتے ہیں تو سامنے والے کا ظرف بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ آگے سے خاموش رہتا ہے یا کچھ کہتا ہے.. اور اگر کہتا ہے تو کیا اور کتنا کچھ کہتا ہے؟ " وہ نرمی سے اسے سمجھاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
" عبد اللہ! تم۔۔تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اس بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں. میری بیوی اسراء مجھے جو بتاتی رہی میں اس پر یقین کرتا رہا۔ میں نے اماں کو کبھی خود سے اسراء کو کچھ ایسا کہتے نہیں سنا، جس کی بناء پر میں اماں کو قصوروار ٹھہراؤں۔ پتہ نہیں مجھ سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہوگئی۔" وہ جیسے دھیرے دھیرے عبد اللہ کی بات کو سمجھتے ہوئے افسردگی سے بولا تھا۔
" عزیر! میں تم سے یہ نہیں کہہ رہا کہ تم بھابھی کی بات نہ سنو یا ان پر یقین نہ کرو۔ لیکن اگر وہ تمہاری اماں کے لیے کچھ کہتی ہیں تو تمہیں چاہیے کہ پہلے تم اپنی اماں سے بھی بات کرو۔ اُن کی بھی سنو، کیونکہ وہ تھا تصویر کا ایک رُخ جو تم نے دیکھا تھا۔ اب تمہیں چاہیے کہ تم تصویر کے دونوں رُخ دیکھ کر کوئی فیصلہ کرو۔ کیونکہ دونوں طرف کا رُخ دیکھ کر ہی تمہیں فیصلے میں آسانی ہوگی اور تم رشتوں میں اعتدال رکھ پاؤگے۔ "
" تم نے بلکل صحیح کہا۔ اب کچھ بھی ہوجائے میں اماں اور ابا کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ انہیں واقعی میری ضرورت ہے اور مجھے اُن کی۔" اب کے عزیر کی آواز میں نمی سی گُھل گئی تھی۔
" ہاں! کیونکہ اُن کا ادب و احترام اور اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھنا تم پر فرض ہے۔ والدین وہ واحد نعمت ہیں عزیر...جو صرف ایک بار ملتے ہیں. جس کے لیے ہم اللہ کا جتنا شکر ادا کریں وہ بہت کم ہے۔ تم اگر چاہو بھی تو اُن کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اپنی زندگی کو پُرسکون بناؤ اُن کی دعاؤں سے۔ نہ کہ اُن سے دور جا کر۔ کیونکہ یہ دوریاں بڑی جان لیوا ہوتی ہیں۔ چاہے دل کی ہوں یا جگہ کی۔ ہمیشہ دونوں طرف کی بات کو سنو اور سمجھ لینے کے بعد کوئی فیصلہ کرو۔ پھر آگے بڑھو۔ ان دوریوں کو مٹاؤ اور ایک خوبصورت، خوش رنگ زندگی پاؤ۔ " اب کے عبد اللہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
" بہت شکریہ عبد اللہ! تم نے واقعی میری اُلجھن کو سلجھانے میں میری بہت مدد کی ہے۔ تمہارا نام سچ میں بہت خوبصورت ہے۔ تم واقعی اللہ کے بندے ہو۔ " عزیر کی آواز میں اب سکون جھلک رہا تھا۔ جیسے اس کی مشکل آسان ہوگئی ہو۔ جیسے وہ خوش ہو۔ بہت خوش۔
" عزیر! اگر جو ہم اللہ کی ماننے لگ جائیں اور اپنی عقل و شعور کا استعمال کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کریں.. اور ایسا فیصلہ جس سے ہمارا رب راضی ہو، تو یہاں پہ ہم سب ہی عبد اللہ ہیں۔ سب ہی اللہ کے بندے ہیں۔ " وہ اللہ کا بندہ کہتے ساتھ ہی خوبصورتی سے مسکرادیا تھا۔


**********

ختم شُد                                  

   16
10 Comments

Arshi khan

06-Sep-2022 09:43 PM

Bahut acha lakhti hai app wonderful 🔥🔥🔥🔥🔥

Reply

Muskan Malik

04-Sep-2022 12:47 PM

ماشاءاللہ بہت خوبصورت👌👌

Reply

Gunjan Kamal

04-Sep-2022 11:58 AM

👏👌

Reply